ارنا رپورٹ کے مطابق، "مچید تخت روانچی" نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوڈ سیکیورٹی اور تنازعات پر سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں میں کہا کہ غذائی عدم تحفظ، موسمیاتی تبدیلی، کووڈ- 19 کی وبا اور مختلف بین الاقوامی تنازعات کے منفی اثرات نے ایران سمیت کئی ممالک کو متاثر کیا ہے، جو چار دہائیوں سے زائد عرصے سے امریکی پابندیوں کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ، افغانستان سے کئی ملین پناہ گزینوں کی میزبانی نے ایران کی معیشت بشمول خوراک کی فراہمی پر دباؤ ڈالا ہے۔
اعلی ایرانی سفارتکار نے اس بات پر زوردیا کہ اقوام متحدہ، عالمی برادری اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور ایران میں مقیم غیر ملکی شہریوں کو ضروری تکنیکی اور مالی امداد فراہم کرنے کے پابند رہیں۔
دنیا میں غذائی عدم تحفظ کی سب سے بڑی وجہ تنازعات ہیں
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ غذائی عدم تحفظ اور تنازعات کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ تنازعہ خوراک کی عدم تحفظ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
انہوں نے 2022 کی ورلڈ فوڈ کرائسز رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر بھوک کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ جاری ہے، اور گزشتہ چھ سالوں میں خوراک کی شدید عدم تحفظ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
تخت روانچی نے عالمی اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ2021 تک، 53 ممالک میں تقریباً 193 ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے اور انہیں فوری مدد کی ضرورت تھی۔ اس میں 36 ممالک کے تقریباً 40 ملین افراد شامل ہیں جو ہنگامی حالت یا اس سے بھی بدتر حالت میں تھے۔
افریقہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے
ایرانی سفیر نے کہا کہ انہی رپورٹوں کے مطابق، تنازعات اب بھی 24 ممالک کے 139 ملین لوگوں کے لیے غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجہ ہیں، جو 2021 میں بحران یا بگڑتی ہوئی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار دنیا بھر میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا خوراک کی کمی سے متاثر ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ افریقہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
افغانستان میں 22 ملین افراد کو خوراک کی امداد کی فوری ضرورت ہے
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے نے افغانستان، یمن، شام اور فلسطین سمیت غذائی بحران کے شکار ممالک کی صورت حال کا حوالہ دیا اور کہا کہ افغانستان میں 22 ملین افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انہیں امداد کی اشد ضرورت ہے۔
تخت روانچی نے کہا کہ ایران افغانستان میں غذائی تحفظ کی خصوصی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ موجودہ چیلنجنگ صورتحال میں بین الاقوامی برادری سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ افغان عوام کی مشکلات پر قابو پانے میں مدد کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ 2022 کے اوائل میں، یمن میں شدید غذائی عدم تحفظ 2021 کے اوائل کے مقابلے میں بحران میں مبتلا افراد کی تعداد میں 8 فیصد اضافے سے خراب ہوا۔
یمن میں شدید غذائی عدم تحفظ/ فلسطین پر کئی دہائیوں کا قبضہ اور غزہ کا غیر قانونی محاصرہ
اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر نے اس بات پر زور دیاکہ فلسطین میں انسانی صورتحال اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ کئی دہائیوں کے قبضے اور اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ غزہ کا غیر قانونی محاصرہ، جو فلسطینی عوام کے خوراک کے حق پر سخت پابندیاں لگاتا ہے، جلد از جلد ختم کیا جانا ہوگا۔
شام میں قبضے، پابندیوں اور دہشت گردی کی وجہ سے تجارت اور خوراک کی فراہمی اور زراعت میں خلل
انہوں نے شام سے متعلق کہا کہ مسلسل قبضے، دہشت گردی، اور یکطرفہ پابندیوں نے اس ملک کے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے، لوگوں کی روزی روٹی تباہ کر دی ہے، تجارت اور خوراک اور زرعی رسد میں خلل پڑا ہے، بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے، اور اہم وسائل تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔
تخت روانچی نے خوراک کے عدم تحفظ پر پابندیوں کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یکطرفہ جبر کے اقدامات سے بنیادی انسانی حقوق بشمول خوراک کے حق اور خوراک کی عدم تحفظ کی خلاف ورزی ہوتی ہے، کا باعث بنتے ہیں۔
جبر اور غیر قانونی اقدامات پابندیوں کا شکار ممالک کے عوام کو بھوکا مارنے کے ہتھیار ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا که بڑی افسوس کی بات ہے کہ بعض ممالک ان غیر قانونی اقدامات کو جو کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے خلاف ہیں، کو پابندیوں کے شکار ممالک کی آبادی کو بھوکا مارنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ خوراک کی فراہمی کے عمل اور فوڈ چین کو کسی بھی طرح سے متاثر نہیں کیا جانا ہوگا، حتی کہ مسلح تصادم کے وقت بھی؛ اس سلسلے میں بین الاقوامی قانون بالخصوص 1949 کے جنیوا کنونشن کی مکمل پابندی ضروری ہے۔
تخت روانچی نے مزید کہا کہ مزید برآں، اقوام متحدہ کی پابندیاں اس طرح عائد نہیں کی جانی ہوں گی جس سے عالمی غذائی تحفظ کو خطرہ ہو۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ